علی بن ابی طالب
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد رضی اللہ عنہم کے طور پر سنہ 656ء سے 661ء تک حکمرانی کی، لیکن انھیں شیعہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام معصوم اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔
مسلمان انھیں ابو الحسن، ابو تراب، حیدرو حیدرہ، اسد اللہ/شیر خدا، المرتضی، امیر المومنین، باب مدینہ العلم اور عام طور پر عرب میں: سیِّدُنا علی اور عرب و عجم میں امام علی، ہند و پاک میں مولا علی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد کے ہاں پیدا ہوئے۔ روایات کے مطابق علی، مقدس ترین اسلامی شہر مکہ میں کعبہ کے اندر جائے حرمت میں پیدا ہوئے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ بچوں میں پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، اور کچھ مصنفین کے مطابق پہلے مسلم تھے۔ابتدائی دور میں علی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیاور ابتدائی مسلمانوں کے خلاف کی گئی تقریباً تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد انھوں نے پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا سے شادی کی۔ خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد سنہ 656ء میں صحابہ نے انھیں خلیفہ منتخب کیا تھا۔علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دو بغاوتیں اور خوارج کی خانہ جنگیاں دیکھیں اور نہایت بہترین اقدامات کیے۔ سنہ 661ء میں جب وہ جامع مسجد کوفہ میں نماز پڑھا رہے تھے عبد الرحمن بن ملجم نامی ایک خارجی نے ان کے سر پر تلوار سے حملہ کر دیا اور وہ دو دنوں بعد شہید ہو گئے۔
علی شیعوں اور سنیوں، دونوں کے ہاں سیاسی طور پر اور روحانی طور پر اہم ہیں۔ فرقوں کے نزدیک علی کے متعلق متعدد سوانح عمریاں، ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں، لیکن وہ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ وہ پارسا مسلم اور قرآن و سنت پر سختی سے کاربند تھے۔ سنی علی کو چوتھا اور آخری خلیفہ راشد سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ قرآنی آیات اور متعدد فرامین نبوی جن میں اہم ترین واقعہ غدیر خم ہے، کو دلیل بنا کر انھیں محمد کے بعد پہلا اِمام مانتے ہیں۔ شیعوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ علی اور دیگر شیعہ ائمہ (اہل بیت سے تمام) بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔ اسی اختلاف پر امت مسلمہ کو شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ علی کو مختلف غیر مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی پزیرائی حاصل ہے جیسے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے عالمی تنظیم نے ان کے طرز حکمرانی اور سماجی انصاف کی تعریف کی ہے
0 Comments