Ad Code

Ads Advertising

Huzoor SAW Ke Nam Likha Gaya Hazar Saal Purana Khat - Tubba Humairi Ka Waqia - New Stories in Urdu Free Copyright ©️

 بسم الله الرحمن الرحیم

Huzoor SAW Ke Nam Likha Gaya Hazar Saal Purana Khat - Tubba Humairi Ka Waqia - New Stories in Urdu Free Copyright ©️
Huzoor SAW Ke Nam Likha Gaya Hazar Saal Purana Khat - Tubba Humairi Ka Waqia - New Stories in Urdu 

یہ تقریباً 2500 سال پرانی بات ہے، ملک یمن پر اسعد مبان حمیری نامی بادشاہ کی حکومت تھی، چونکہ یمن کی زبان میں بادشاہ کو تبع کہا جاتا تھا اس لئے تاریخ میں یہ بادشاہ شیخ الاول (یعنی پہلا بادشاہ) اور تبع حمیری کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک مرتبہ تشیع اپنے وزیر کے ساتھ سیر پر نکلا، تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار پیدل چلنے والے اور ایک لاکھ 30 ہزار گھڑ سوار بھی اس کے ہمراہ تھے۔ جس جس شہر میں یہ قافلہ پہنچتا لوگ ہیبت اور تعجب کے مارے بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ اس سفر کے دوران تشیع ہر شہر سے 10 علما منتخب کر کے اپنے قافلے میں شامل کر رہا تھا، یوں کئی شہروں کی سیر کے بعد تقریباً 4 ہزار علما شیع کے قافلے میں جمع ہو گئے۔ جب یہ قافلہ شہر مکہ پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے ان کی ذرا بھی آؤ بھگت نہ کی، یہ دیکھ کر تشیع کو بہت غصہ آیا، اُس نے وزیر کو بلا کر اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: بادشاہ سلامت ! یہاں کے لوگ بہت عجیب و غریب ہیں، اِس شہر میں ایک عمارت ہے جس کا نام کعبہ ہے، یہ لوگ اس عمارت میں شیطان اور بتوں کو پوجتے ہیں۔ یہ سب سن کر تشبع -  نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ و وه مکه کے آدمیوں کو قتل کر کے عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لے گا اور ساتھ ہی کعبہ کو بھی گرادے گا اور پھر کعبہ کا نام خربہ (یعنی ویران جگہ ) ہو جائے گا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ یہ خیال آتے ہی تشیع کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا جبکہ اس کی آنکھ، کان، ناک اور منہ سے بدبودار پانی بہنے لگا،

جس کی وجہ سے اتنی سڑاند پیدا ہو گئی کہ تشیع کے پاس ایک لمحہ ٹھہر نا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ وزیر نے طبیبوں سے مشورہ کیا مگر کوئی بھی تبع کا علاج دریافت نہ کر سکا، طبیبوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آسمانی معاملہ لگتا ہے جس کو ٹالنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ بیماری نے تشیع کی نیند اُڑا کر رکھ دی تھی کہ اچانک رات کے ایک پھر ایک عالم صاحب وزیر کے پاس آئے اور رازداری سے فرمانے لگے : اگر بادشاہ میرے سوال کا سچ سچ جواب دینے کو تیار ہو جائے تو میں اُس کا علاج کر سکتا ہوں۔ وزیر نے یہ بات تو تتبع کو بتائی تو وہ فوراً راضی ہو گیا۔ چنانچہ جب عالم صاحب تشیع کے پاس پہنچ کئے جہاں اُن دونوں کے علاوہ کوئی نہ تھا تو انہوں نے پوچھا: بادشاہ ! سچ سچ بتاؤ !

کعبہ کے متعلق تمہارے دل میں کیا بات ہے؟ تبع جو بیماری کی وجہ سے مکمل نڈھال تھا فوراً اپنے بڑے ارادے عالم صاحب کو بیان کرنے لگا جسے سن کر وہ بولے : تمہاری بیماری کی وجہ یہی بری نیت ہے، یہ بات یاد رکھو کہ کعبہ کا مالک چھپی ہوئی باتوں کو بھی جان لیتا ہے، اس لئے اپنے دل سے بُرے خیالات نکال دو، اسی میں تمہارا بھلا ہے۔

تبع مرتا کیا نہ کرتا، فوراً برے ارادوں سے تائب ہو گیا اور ابھی عالم صاحب کے بھی نہ تھے کہ وہ بالکل ٹھیک ہو گیا، عالم صاحب کی بات اپنی آنکھوں سے درست ہوتی دیکھ کر تشبع رب تمع رب پاک پر ا پر ایمان لے آیا اور دین ابراہیمی پر قائم ہو گیا، پھر اس نے کعبہ کی تعظیم کے لئے 7 غلاف بھی تیار کروائے،

اس سے پہلے کبھی کسی نے کعبہ پر غلاف نہیں چڑھایا تھا۔ اس کے بعد تبع شہر مکہ کے رہنے والوں کو کعبہ کی حفاظت کا حکم دے کر مدینے شریف کی طرف چل پڑا۔ مدینہ منورہ میں اُن دنوں آبادی نہ تھی، پانی کے ایک چشمے کے علاوہ یہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ تبع کے قافلے نے وہاں پہنچ کر اسی چشمے کے پاس پڑاؤ ڈالا، یہاں قیام کے دوران تقریباً 4 ہزار علما کا آپس میں ایک مشورہ ہوا جس کے بعد اُن میں سے 400 علما نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ جب تک زندہ ہیں کسی قیمت پر اس جگہ (یعنی مدینہ منورہ کی سرزمین کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے چاہے تبع انہیں جلا ڈالے یا مار ڈالے۔ تشیع کو یہ بات پتا چلی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوا، اُس نے وجہ معلوم کرنے کے لئے وزیر کو بھیجا تو علما نے فرمایا: ” ایک نبی علیہ السلام تشریف لائیں گے جن کا نام محمد ( علم ہو گا، اُن کی وجہ سے کعبہ اور مدینہ منورہ کو عزت نصیب ہو گی، وہ حق کے امام ہوں گے، ذوالفقار نامی اُن کی تلوار ہو گی، اونٹنی پر سواری فرمائیں گے، منبر پر کھڑے ہو کر لاٹھی ہاتھ میں لئے خطبہ ارشاد فرمائیں گے ، قرآن عطا کر کے اُن کی شان کو اور بڑھایا جائے گا اور جب قیامت کا دن ہو گا تو اُن کے سر پر حمد کا تاج اور ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا۔ وہ لوگوں کو لا الا ا اللہ کی دعوت و دعوت دیں گے، ولادت شریف لا إله إلا الله شہر مکہ میں ہوگی اور ہجرت سے مدینہ منورہ کو نوازیں گے۔ وہ شخص یقیناً سعادت مند ہو گا جو اُن کے زمانے میں ہوگا اور اُن پر ایمان لائے گا۔ اسی لئے ہم اس اُمید پر یہاں مرتے دم تک رہنا چاہتے ہیں کہ یا تو ہمیں محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار گوہر بار کی حاضری نصیب ہو جائے یا ہماری اولاد اس سعادت سے بہرہ مند ہو جائے۔ وزیر کی زبانی ماجرا معلوم ہونے کے بعد تبع نے سوچا: کیوں نہ میں بھی ان 400 علما کے ساتھ ایک سال تک یہیں ٹھہر جاؤں، ہو سکتا ہے اس عرصے میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہو جائے۔ اس خیال سے تشبع نے بھی وہیں قیام کر لیا اور 400 علما کے رہنے کے لئے 400 گھر بنوائے، اُن کی شادیاں کروائیں اور خوب مال و دولت بھی دیا۔ ایک سال انتظار کے بعد جب تبع کا وہاں سے جانے کا ارادہ ہوا تو اُس نے بارگاہ رسالت میں پیش کرنے کے لئے ایک خط لکھا جس کا عنوان اور مضمون کچھ یوں تھا: تع الاول حمير بن وردع کی طرف سے دو جہاں کے رب کے رسول، اور سب سے آخری نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف۔ (یہ خط اللہ کی امانت ہے، جس کو ملے وہ اس کے مالک تک پہنچائے) یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میں آپ پر اور قرآن مجید پر ایمان لاتا ہوں، آپ کے دین اور سنت کو اپناتا ہوں، آپ کے اور ہر چیز کے رب پر ایمان لاتا ہوں اور جو شریعت آپ لائیں گے اُسے بھی قبول کرتا ہوں۔ اگر میں آپ کی صحبت کا شرف پانے میں کامیاب ہو گیا تو یہ مجھ پر رب کا انعام ہو گا اور اگر یہ سعادت مجھے نہ مل سکی تو آپ قیامت کے دن مجھے بھولئے گا نہیں، رب کی بارگاہ میں میری شفاعت کیجئے گا، میں آپ کا فرمانبردار امتی ہوں اور تشریف آوری سے قبل ہی آپ کی پیروی کرنے والا ہوں، میں آپ اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔“ یہ خط لکھنے کے ! بعد تشیع نے اس پر اپنی سنہری مہر لگائی جس پر یہ عبارت نقش تھی:(یعنی پہلے اور بعد حکم اللہ ہی کا ہے، اور اس دن ایمان والے اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے)۔ پھر جن عالم صاحب نے تشیع کی اصلاح کی تھی تبع نے یہ خط انہی کے سپرد کر دیا اور وصیت کی کہ اگر آپ کی محمد مصطفے  سے ملاقات ہو تو یہ خط ان تک پہنچائیں اور اگر ملاقات نہ ہو تو آپ کی اولاد یا اولاد کی اولاد اس خط کو بحفاظت بارگاہِ مد شیخ مدینہ منورہ سے رسالت میں : پہنچائیں۔ اس - کے بعد ہند کے شہر غکسان چلا گیا اور وہاں اُس کا انتقال ہو گیا۔ تبع کے انتقال سے تقریباً 1000 سال بعد کمی مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، 53 سال مکہ مکرمہ کو نوازنے کے بعد پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس ہجرت میں مسلمانوں کی مدد کرنے والے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو انصار “ کہا جاتا ہے، یہ انصار اُنہی 400 علما کی اولاد سے تھے اور 1000 سال سے نسل در نسل خط کی حفاظت کرتے آرہے تھے۔ جب انصار کو حضور نبی کریم ا عالم کی مدینہ منورہ تشریف آوری کا ارادہ معلوم ہوا تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، انہوں نے بارگاہ رسالت میں تشیع کا خط پہنچانے کے لئے آپس میں مشاورت کی، اس مجلس مشاورت میں صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے جو مکہ سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے تھے، اُنہوں نے مشورہ دیا کہ کسی بالاعتماد آدمی کو یہ خط دیا جائے جو بحفاظت اسے بارگاہ رسالت میں پہنچا سکے، چنانچہ وہ خط ابو لیلی انصاری کے سپرد کر دیا گیا جو بعد میں ایمان لے آئے تھے۔ اس کے بعد ابولیلی انصاری خط لے کر مکہ جانے والے راستے پر نکل پڑے، سفر کے دوران جب قبیلہ بنو سلیم ہم پہنچے تو وہاں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوه کر تھے ، ابولیلی آ ابولیلی انصاری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے ہی ابولیلی انصاری کو دیکھا تو پکارا : انت ابو لیلی ؟ یعنی تم ابولیلی ہو ؟ عرض کی: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”تمہارے پاس ہی تع الاول کا خط رہے۔ اتنا سننا تھا کہ ابو لیلی انصاری حیران رہ گئے اور انہیں تعجب ہوا کہ یہ کون شخصیت ہیں جو میرا نام بھی جانتے ہیں اور میرے یہاں آنے کے مقصد سے بھی واقف ہیں ! اس لئے عرض کی: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں ہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں، خط لاؤ! یہ سن کر ابو لیلی انصاری نے اپنا تھیلا کھولا اور تبع بادشاہ کا تقریباً ایک ہزار سال پرانا مہر لگا ہوا خط بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو خط پڑھ کر سنانے کا حکم دیا، جب خط سنا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 3 بار فرمایا:

 نیک بھائی کو خوش آمدید !

نیک بھائی کو خوش آمدید !

نیک بھائی کو خوش آمدید !

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابولیلی انصاری کو مدینہ منورہ کی طرف لوٹ جانے کا حکم دے دیا۔ ابو لیلی انصاری جب مدینہ منورہ پہنچے تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں خط پہنچانے کی روداد سنائی جسے سن کر لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق ابولیلی انصاری کو انعام و اکرام سے نوازا۔

اس کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلع البدر علينا“ کی صداؤں میں مدینہ کی سر زمین پر قدم رکھ کر اُسے ہمیشہ کے لئے ”مدینہ طیبہ “ بنایا تو ہر قدم رکھ کر اُسے ہمیشہ کے لئے مدینہ طیبہ “ بنایا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ہاں قیام فرمائیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اونٹنی کو چھوڑ دو! جہاں اللہ کا حکم ہوگا یہ وہاں رک جائے گی۔

چنانچہ اونٹنی چلتے چلتے صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کے آگے رک گئی، آپ رضی اللہ تعالی عنہ انہی عالم صاحب کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے تشیع کی اصلاح کی تھی اور آپ کا مکان وہی مکان تھا جو تشیع نے خاص پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنوایا تھا۔ 

ماخوذ از تاریخ دمشق، ج 11، ص 14تا3 (وسائل بخشش (مرمم)، ص 489)

Post a Comment

0 Comments