Ad Code

Ads Advertising

Real History of Saddam Hussein in Urdu - Saddam Hussein Story - Why is Saddam Hussein famous?- New Stories in Urdu Free Copyright ©️

 صدام حسین

ناظرین صدام حسین کو پھانسی کیوں دی گئی تھی ؟

 سابق عراقی صدر صدام حسین اپنی پھانسی سے کچھ وقت پہلے انگریز سپاہی سے کوٹ کیوں مانگتے رہے؟ کیا صدام حسین ابھی بھی زندہ ہیں؟ پھانسی کے بارہ سال بعد سابق عراقی صدر صدام حسین کی لاش کس حالت میں نکلی تھی اور اُن کے مقبرے کو کس نے اور کیوں تباہ کیا تھا؟ یہی ہماری آج کی ویڈیو کا موضوع ہوگا اور آج ہم آپ کو عرب دنیا کے سب سے بااثر مسلمان حکمران سابق عراقی صدر صدام حسین کی موت کے بارے میں کچھ ایسے حقائق بتائیں گے جو یقیناً آپ کے لیے حیران کن ہوں گے۔ ناظرین آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے 30 دسمبر سال 2006 بمطابق 10 ذی الحجہ 1427 ہجری عید الاضحی کے دن سابق عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی تھی انہیں عراق کی اعلیٰ عدالت نے جیل میں 1982 میں 148 مردوں کی ہلاکت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ناظرین اُن افراد کو صدام حسین پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔ صدام حسین کی پھانسی کے مناظر کی ویڈیو انٹرنیٹ پر نشر کی گئی تھی اور لاکھوں افراد نے عظیم مسلم حکمران کو کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے پھانسی کا پھندا بنتے ہوئے دیکھا۔ ناظرین صدام حسین کی پھانسی کی کاروائی کی نگرانی کرنے والے فوجیوں نے اب یہ راز لوگوں تک پہنچائے ہیں کہ ایک  امریکی پہرے دار سے صدام حسین نے کہا کہ مجھے کمبل یا گرم کوٹ لاکر دو ان کی خواہش پر امریکی فوجیوں نے انہیں گرم کوٹ لا کر دیا اور پھر حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کوٹ کیوں پہنا ہے؟ جس کے جواب میں صدام حسین نے کہا تھا کہ مجھے شدید سردی لگ رہی ہے جب امریکی فوجی صدام حسین کو پھانسی کی سزا دینے کے لئے لے کر جا رہے تھے تو فوجیوں نے صدام حسین سے پوچھا کہ ان کی آخری خواہش کیا ہے اس پر صدام حسین نے پھر کہا کہ مجھے پہننے کے لئے میرا کوٹ دیا جائے خواہش کے مطابق کوٹ دیا گیا فوجی نے پھر حیران ہو کر پوچھا کوٹ کیوں پہنا ہے صدام حسین نے جواب دیا آج ٹھنڈ بہت ہے ایسا نہ ہو کہ میرا جسم سردی سے کانپے اور عراق کے لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا لیڈر موت کے ڈر سے کانپ رہا ہے۔ ناظرین صدام کے آخری ایام میں ان کی حفاظت پر مامور فوجیوں کے مطابق صدام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون سے سرشار تھے اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی ایک فوجی نے بتایا کہ صدام حسین نے اپنی پسند کا ناشتہ طلب کیا اور اس کے بعد وضو کر کے نماز فجر ادا کی پھر وہ پھانسی کے فیصلے پر عملدرآمد کے انتظار میں اپنے بستر پر بیٹھ کر قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کرنے لگے صدام کے چہرے پر اطمینان تھا جبکہ امریکی فوجی اہلکار صدام کی مسکراہٹ سے بہت زیادہ خوف محسوس کر رہے تھے اور موت کا سامنا کرتے ہوئے صدام کے انتہائی سکون کے سبب ان فوجیوں کا گمان تھا کہ عنقریب کوئی بم دھماکہ کر دیا جائے گا۔ ناظرین صدام حسین کی میت کو اُن کے آبائی قصبے العوجہ میں دفن کیا گیا پھر اس پر مقبرہ بنا دیا گیا امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے خود سابق عراقی صدر کی لاش کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بغداد سے شمالی شہر تکریت میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا صدام کے قبیلے البونصر کے سربراہ شیخ مناف علی الندا کے پاس لاش کی وصولی سے متعلق ایک دستخط شدہ خط موجود ہے اس میں انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ میت کو بلا تاخیر تدفین کر دی جائے گی ناظرین اس کے بعد سے ہر سال 28 اپریل کو صدام حسین کی قبر پر زائرین کی بڑی تعداد کی آمد ہوتی ہے یہ اُن کی سالگرہ کا دن ہے اور اس روز وہاں آنے والوں میں سکول کے بچے تک شامل ہوتے ہیں 2018 میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ صدام حسین کے مقبرے کو شیعہ ملیشیا پر مشتمل الحشد الشعبی نے ایک فضائی حملے میں مسمار کر دیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صدام حسین کا مقبرہ کھلا ہوا ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بالا ایک نجی طیارے میں سوار ہو کر تکریت آئی تھی اور وہ اپنے والد کی باقیات کو وہاں سے اردن ساتھ لے گئی تھیں۔ ڈیلی مانیٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق جامعہ کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ نا ممکن ہے اُنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ بالا کبھی بھی عراق واپس نہیں آئی یہ ہو سکتا ہے کہ صدام حسین کی باقیات کو کسی خفیہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہو مگر کوئی نہیں جانتا کہ کس نے یہ کام کیا ہے اور لاش کو کہاں منتقل کیا گیا ہے ناظرین یہ بھی ممکن ہے کہ صدام حسین کے مقبرے کے ساتھ وہی معاملہ پیش آیا ہو جو اُن کے والد کی قبر کے ساتھ پیش آیا تھا ان کے والد کی قبر کو نامعلوم افراد نے دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ ناظرین ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ عراق میں صدام حسین کے چاہنے والے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدام ابھی بھی زندہ ہیں ان کا خیال ہے کہ صدام کو مصلوب نہیں کیا گیا ان کا خیال ہے کہ صدام مرا نہیں بلکہ ان کے کسی ہم شکل کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ناظرین عراق کے سابق صدر صدام حسین کی سکیورٹی پر مامور 12 امریکی فوجی ان کی زندگی کے بہترین دوست تو نہ تھے تاہم وہ ان کے آخری ایام میں بہترین ساتھی رہے۔ یہ 551 ملٹری پولیس کمپنیوں سے منتخب ہوئے تھے اور انہیں سپر 12 کہا جاتا ہے۔ ان محافظوں میں سے ایک ول بارڈن ور پر تھے جنہوں نے ”دی پر زنر ان ہر پیلس کتاب لکھی۔ جس میں انہوں نے صدام حسین کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا۔ بارڈن ور پر کا کہنا ہے کہ جب صدام حسین کو پھانسی دینے والے اہلکاروں کے سپرد کیا جا رہا تھا تو ان کے تمام محافظوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ زارو قطار رو رہے تھے۔ اپنے ایک ساتھی ایڈم کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب کے مصنف بارڈن نے لکھا کہ ہم نے صدام کو کبھی بھی نفسیاتی مریض اور قاتل کے طور پر نہیں دیکھا ہم اسے گرینڈ فادر کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدام اپنے آخری دنوں میں اپنی قیمتی ایکسر سائز بائیک جسے وہ اپونی کہتے تھے پر بھی بیٹھا کرتے تھے۔ وہ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے۔ بارڈن ور پر کہتے ہیں کہ آخری ایام میں صدام کا دوسروں کے ساتھ رویہ بہت نرم تھا اور انہوں نے یہ تاثر نہیں چھوڑا کہ وہ بہت ظالم حکمران تھے۔ ایک بار ایک امریکی سپاہی جو کہ صدام کی حفاظت پر مامور تھے نے انہیں اپنے بھائی کی موت کے بارے میں بتایا تو جواب میں صدام نے کہا کہ اتم مجھے آج سے اپنا بھائی سمجھو۔ انہوں نے ایک دوسرے محافظ سے کہا کہ اگر مجھے میرے اپنے پیسے کو استعمال کرنے کی اجازت ملے تو میں تمہارے بیٹے کی تعلیم کے اخراجات ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ایک شب ہم نے دیکھا کہ ایک 20 سالہ سپاہی ڈوسن اپنے سائز سے بڑا سوٹ پہن کر گھوم رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نے صدام حسین کی جانب سے تحفے میں دیا گیا سوٹ پہن رکھا تھا۔ بارڈن ور پر لکھتے ہیں کہ بہت دن تک ہم ڈوسن کا مذاق اڑاتے رہے لیکن اس نے پھر بھی سوٹ پہنے رکھا۔ اپنی پھانسی سے کچھ ہی دیر پہلے صدام حسین نے ایک امریکی فوجی سٹیو کو باہر بلایا اور اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اسے دے دی۔ اب بھی جار جیا میں سٹیو کے گھر میں وہ گھڑی محفوظ ہے اور اس کی ٹک ٹک سنائی دیتی ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments