Ad Code

Ads Advertising

Sultan Mehmood Ghaznavi Ka Waqia In Urdu

  سلطان محمود غزنوی

Sultan Mehmood Ghaznavi Ka Waqia In Urdu
Sultan Mehmood Ghaznavi Ka Waqia In Urdu

سلطان تیز تیز قدم اٹتا ہوا ان کے نزدیک گیا۔ تو اسے محسوس ہوا کہ یہ چور ہیں۔ جو کسی جگہ پر چوری کرنے کی نیت سے جا رہے ہیں۔

سلطان محمود غزنوی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر چور خوف زدہ ہو گئے کہ یہ آدھی رات کے وقت کون اس طرف آرہا ہے

چونکہ انہوں نے سلطان کو بالکل نہیں پہنچنا تھا۔ اس لیے کہنے لگے ، تم کون ہو ؟ سلطان نے کہا میں بھی تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں۔ چوروں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی ہماری طرح کا کوئی چورہی ہے۔

کہ جو آدمی رات کے بعد چوری کی نیت سے ملا ہے چنانچہ انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے ان سے کیا اتنی رات گئے تم کسی ارادے سے پھر رہے ہو ؟ وہ کہنے لگے اس ارادے سے جس ارادے سے تم پھر رہے ہو۔ یعنی چوری کی نیت سے۔سلطان محمود غزنوی نے کہا اگر چوری ہی کرنی ہے۔ تو پر کسی ایسی جگہ کرو جہاں سے اس قدر دولت تو ہاتھ لگے جو ساری عمر کے لیے ہمیں کافی ہو۔اور پھر کبھی چوری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے میرا مشورہ تو یہ ہے۔ کہ شاہی محل کو لوٹتے ہیں۔ جہاں سے ہمیں بہت بڑا خزانہ ہاتھ آسکتا ہے۔ چوروں نے یہ سنا تو بڑے خوش ہوئے اور سلطان محمود غزنوی کی جرات پر عش عش کر اٹھے۔ اور کہا واہ کے اہ بھئی واہ تم تو بڑے بہادر اور جرات مند چور ہو کیونکہ شاہی محل میں چوری کرنا بڑی ہمت اور حوصلے کا کا ہے۔ اور تم اس بات کے کرنے میں ذرا بھی نہیں گھبرائے ہم تمہیں آ ہیں آج سے اپنا سر دار مانتے ہیں۔تم جو کم دو گے ہم اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن یہ جو کام تم ۔ م نے شاہی محل محل والا بتایا ہے وہ بڑا مشکل ہے سلطان محمود غزنوی نے کہ میرے ہوتے ہوئے ہمیں ذرا بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں میری موجودگی میں تم ہر مشکل کو آسان سمجھو اور بالکل نہ گھبراؤ۔اب تیاری کرو کیونکہ شاہی خزانے پر آج ہی ہاتھ صاف کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہم ایک منصوبہ بنا لیتے ہیں تاکہ آسانی رہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا کمال بیان کرے کہ وہ کس خصوصی صفت کا مالک ہے۔ ان سب نے باری باری اپنا اپنا کمال بتانا شروع کیاایک چور نے کہا میں یہ کمال رکھتا ہوں کہ۔ جس جگہ پر خزانہ رکھا گیا ہو مجھے اس جگہ کی مٹی سے خزانے کی خوشبو آجاتی ہے۔ دوسرا چور کہنے لگا، مجھے یہ کمال حاصل ہے کہ اگر سخت اندھیری رات میں بھی کسی کو ایک مرتبہ دیکھ لوں تو پھر اس کی شکل بھی نہیں بھولتا اور دن کی روشنی میں بغیر کسی مشکل کے اسے شناخت کر لیتا ہوں۔تیسرے چور نے کہا میں یہ خصوصی کمال رکھتا ہوں کہ کتا جو کچھ کہہ رہا ہو مجھے سمجھ آجاتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ چو تھا چور بولا میں اس کام میں خصوصی کمال رکھتا ہوں کہ چاہے۔ محل کی دیوار جتنی بھی بلند ہو اگر میں کمند پھینکو توں تو وہ فورا" دیوار کے اوپر جا کر فٹ ہو جاتی ہے۔ جس کے باعث ہم تمام آسانی کے ساتھ مل کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔جب چاروں چوروں نے اپنا اپنا کمال بیان کر دیا تو سلطان محمود غربی سے کہنے لگے اے ہمارے سردار ! ہم سب نے تو اپنا اپنا مال بیان کر دیا ہے۔ اب تم بھی بتاؤ کہ تم کیا خصوصی کمال رکھتے ہو ؟ سلطان محمود غزنوی نے کہا جو میں کمال رکھتا ہوں وہ سب سے اعلی ہے مجھ میں یہ خصوصیت ہے۔ کہ اگر مجر مگر فتار ہوں اور ان کو موت کی سزا کا حکم ہوپھر جلاد ان کی گرد نہیں اتارنے کے لیے انہیں تختہ دار پر بھی لے آئے تو عین اس موقع پر اگر میں اپنی داڑھی پہلا دوں تو سب مجرم اسی وقت قید سے چھوٹ جائیں۔ اور ان کی جان بخشی ہو جائے سب چور یہ سن کر بڑے حیران ہوئے۔ اور کہا واقعی یہ بہت بڑا کمال ہے اس کمال کے ہوتے ہوئے تو ہمیں ذرا بھی ڈر ر محسوس نہیں کرنا چا۔ چاہیے۔اس کے بعد وہ سب شاہی محل کی طرف چوری کے ارادے سے چل پڑے ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے۔ کہ راستے میں ایک کتا ان کی طرف دیکھ کر بھونکا جو چور کتے کی زبان سمجھتا تھا۔ سب چور اس سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ یہ کتا کیا کہہ رہا ہے ؟ وہ بولا سا تھیو! کتے نے جو کچھ کہا ہے اسے سن کر تو میں بڑا حیران ہو رہا ہوں۔اگر تم سنو تمہیں یقین ہی نہ آئے کہ واقعی کہا ٹھیک کہہ رہا ہے یا لفاط لیکن کتا جو کہہ رہا ہے۔ میں حرف بحرف اسے سمجھ رہا ہوں باقی چوروں کو بھی نجس ہوا اور کہنے لگے بتاؤ تو سہی کہتا کہ کیا رہا ہے ؟ وہ بولا کتا یہ کہہ رہا ہے کہ ان پانچوں میں سے ایک بادشاہ ہے۔ وہ سب یہ بات سن کر ہنسنے لگے اور بولے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ایک بادشاہ ہے۔دو کہنے لگا تم بے شک اس بات پر ہنسو لیکن میں ٹھیک کہتا ہوں کہ کتا یہی کہہ رہا ہے کہ ان پانچوں میں ایک بادشاہ بھی ہے۔

ان سب چوروں نے اپنے دل کو تسلی دینے اور بات کو اپنے مطلب کے مطابق سمجھتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے

کہ کتے کے کہنے کا مقصد یہ ہو کہ یہ پانچویں شاہی خزانہ لوٹنے جارہے ہیں۔ پانچوں بادشاہ ہوں گے ں گے ۔ وہ کہنے لگا تم کتے کی بات کا جو بھی مطلب سمجھو لیکن بخدا جو میں نے تمہیں بتایا ہے کتا وہی بات کہہ رہا ہے۔یہی باتیں کرتے کرتے پانچویں شاہی محل کے پاس پہنچ پاس پہنچی گئے۔ اور دیوار کے نزدیک کھڑے ہو کر کمند پھینکنے والے چور سے کہنے لگے کہ اب تم اپنا کمال دکھاو۔ اس چور نے ایک ہی بار میں جو کمند پھینکی تو وہ محل کی دیوار کے اوپر کنگرے سے لگ گئی گئی اس کے بعد بعد یہ سب باری باری دیوار پار کر گئے اور محل میں داخل ہو گئے اب اس چور کے کمال دکھانے کی باری تھی۔ جو سونگھ کر چھپا ہو اخزانہ کی جگہ بتا دیتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے خصوصی کمال سے کام لے کر جس قدر شاہی خزانہ چھپایا ہو اتھا۔ وہ سب بتا دیا اور ان سب نے مل کر وہاں سے خزانہ نکال لیا اور جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے خزانہ لے کر باہر نکل آئے۔ ابھی صبح نہیں ہوئی تھی اور رات کا اند خیر اباقی تھا وہ فورا" شھر کی حدود سے باہر نکلے اور ایک جنگل میں بیٹھ کر خزانے کی تقسیم کا پروگرام بنانے لگے سلطان محمود غزنوی نے ان سے کہا کہ چونکہ میں تمہار ا سردار ہوں اس لیے میرا علم حکم تم پر لازم ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہم اس وقت خزانے کو آپس میں تقسیم تقسیم نہیں کرتے کیونکہ اگر ہم خزانہ تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ اپنے گھروں کو لے گئے اور چونکہ یہ چوری بادشاہ کے محل میں ہوئی ہے۔ اس لئے جب بادشاہ کو اس چوری کے بارے میں علم ہو گا۔ تو وہ پورے شہر میں اس طرح کا انتظام کرے گا کہ ہر ممکن طریقہ سے چور کو پکڑا جا سکے ہو سکتا ہے۔ کہ وہ گھر گھر تلاشی کے لیے اپنے سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دے۔ تا کہ جس گھر سے بھی خزانہ برآمد ہو چوروں کا پتہ چل جائے۔ اگر ہم خزانے کا حصہ اپنے اپنے گھروں میں لے گئے تو ہم تو فورا پکڑے جائیں گے۔ اس لیے کچھ دنوں کے لیے خزانے کی تقسیم کے کام کو ملتوی کر دیتے ہیں۔ اور اس جنگل میں زمین کھود کر خزانہ یہاں پر دفن کر دیتے ہیں۔ بادشاہ کے کارندے جب خزانے کی تلاش میں ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کے بعد مایوس ہو جائیں گے۔ تو پھر ہم کسی کے ساتھ یہاں آکر خزانہ نکال لیں گے اور آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ سلطان کی اس تجویز کو سب نے قبول کیا اور کہنے لگے کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑی اچھی رائے ہے۔ ہم سردار کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔اس بات پر جب سب میں اتفاق رائے ہو گیا۔ اور سب نے زمین کھود کر خزانہ دفن کر دیا۔ اور اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے لگے تو سلطان محمود غزنوی نے ان سے کہا کہ میں تم لوگوں میں نیا نیا شامل ہوا ہوں اور میں تمہارے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا کہ تم کون ہو اور کسی جگہ پر رہتے ہو۔ چونکہ تم نے مجھے اپنا سردار لیہم تسلیم کیا ہوا ہے اس لیے تم سب مجھے اپنے گھروں کے ایڈریس دو تا کہ مجھے پتہ چلے کہ تم کہاں رہتے ہو۔چنانچہ چاروں چوروں نے اپنے گھر کے پتے سلطان کو بتا دیے۔ اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیئے ۔ اور سلطان محمود غزنوی واپس محل میں آیا۔ جب صبح کا سورج طلوع ہوا۔ تو یکدم شاہی محل کے ایک کونے سے سرکاری کارندوں کا شور بلند ہوا کہ شاہی خزانہ کوئی لوٹ کر لے گیا ہے فوری طور پر پولیس کے سپاہی چوروں کی تلاش میں شہر کی طرف بھاگے۔سلطان محمود غزنوی نے پولیس کے سربراہ کو ان چاروں چوروں کے نام اور ایڈریس بتائے اور حکم دیا کہ ان چاروں کو گرفتار کر لیا جائے کیونکہ ہشاہی خزانے کی چوری انہوں نے ہی کی ہے۔ چنانچہ بادشاہ کے سپاہی کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر چوروں کو گرفتار کر کے لے آئے۔

وہ چاروں چور اپنے پکڑے جانے پر سخت حرت زدہ تھے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟ وہ سوچ رہے تھے کہ اتنی جلدی شاہی سپاہیوں نے ان کو پکڑ کیسے لیا کون ہے کہ جس نے ہماری مخبری کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ خیال بھی آیا کہ ہم چاروں کو تو اگر فتار کر لیا گیا ہے مگر ہمارا سر دار نہیں پکڑا گیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ اسی سوچ و بچار کے عالم میں ان چاروں کو عدالت میں پیش کر دیا گیا اور قاضی نے شاہی خزانے کی چوری کے جرم میں ان کو موت کی سزا کا حکم سنا دیا۔یہ حکم سن کر تو ان کے اوسان خطا ہو گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ اگر اس وقت ہمارا سردار ہوتا تو اپنا کمال دکھاتا۔ لیکن افسوس کہ وہ ہمارے ساتھ پکڑا نہیں گیا۔

اب تو وہ خود ہی اکیلا خزانے پر قبضہ جمالے گا۔ جب ان چوروں کو جلاد تختہ دار کی طرف لے جارہا تھا۔ تو عین اس وقت سلطان محمود غزنوی کا حکم ملا کہ شاہی خزانے کی چوری کے مجرموں کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔تا کہ اگر یہ کوئی اپنی آخری خواہش رکھتے ہوں تو مر نے سے پہلے وہ پوری کی جاسکے۔ سلطان کے حکم کے مطابق چاروں چوروں کو سلطان کے حضور پیش کر دیا گیا۔ چاروں چوری نظریں جھکائے شاہی دربار میں کھڑے تھے اور سلطان محمود غزنوی شاہی لباس زیب تن کیے شان و شوکت کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز تھا اچانک اس چور کی نظر سلطان پر پڑی جو اندھیری رات میں ایک بار کی دیکھی ہوئی شکل بھی نہیں بھولتا تھا۔ اور دن میں شناخت کرنا اس کے لیے بالکل دشوار نہ ہوتا تھا اس نے پہچان لیا کہ تخت پر جو شخصیت جلوہ افروز ہے۔ وہی رات کے وقت ہمار ا سا تھی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنے ساتھی چور کے کان میں کہا۔ اے دوست! رات کو کتے کی کہی ہوئی بات کی سمجھ اب آئی ہے کتا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ کہ ان پانچوں میں ایک بادشاہ ہے یہ جو تخت پر بیٹھا ہے رات کو یہی ہمارا پانچواں ساتھی تھا۔ دوسرا چور اس کی بات سن کر کہنے لگا ارے احمق! کیا بکواس کرتے ہو رات کو تم نے ایک کتے کی بات کا یقین کر کے چور کو بادشاہ بنایا اور اب تم بادشاہ کو چور کہہ رہے ہو لگتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے تم اپنے ہوش میں نہیں۔سلطان محمود غزنوی ان کی آپس میں کھسر پھر سن رہا تھا۔ بولا یہ تم لوگوں نے کیا کھسر پر لگار بھی ہے۔ جس چور نے بادشاہ کو پہچان لیا تھا وہ فورا " چند قدم آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا اے ہمارے سردار ! ہم سب نے تو اپنا اپنا کمال دکھا دیا۔ اب تم اپنی داڑھی کب ہلاؤ گے اس وقت ہلاؤ گے جب ہم موت کے منہ میں چلے جائیں گے ؟سلطان محمود غزنوی اس چور کی یہ بات سن کر ہنس پڑا اور کہا۔ واہ بھئی واہ تم نے مجھے پہچان لیا اور اپنا کمال دکھا دیا۔ تو پھر میں آپ اپنا کمال دکھاتا ہوں اور اپنی داڑھی کو ہلاتا ہوں جاو تم سب آزاد ہو۔ چوروں نے جو اپنی رہائی کا حکم سنا تو بڑے متاثر ہوئے اور اسی وقت سلطان کے قدموں میں گر کر معافی کے خواستگار ہوئے اور آئندہ کے لیے چوری کے کاموں سے توبہ کی اور ہمیشہ کے لیے نیکی کا راستہ اختیار کرنے کا وعدہ کر کے شاہی دربار سے رخصت ہوئے۔

Post a Comment

0 Comments