سلطان صلاح الدین ایوبی
Audio Recording story
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر ایک خط پر کچھ تحریر لکھی اور تحریر لکھنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس خط کو اپنی جیب میں ڈال دیا اور جیب میں ڈالنے کے بعد اپنی تلوار نیام میں رکھنے اور خنجر رکھنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا شاہی لباس بدلا اور ایک عام لباس پہن کرا۔ ن کر اپنے گھوڑے پر سوار روانہ ہو گئے روانہ ہونے سے پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سے علی بن سفیان نے فرمایا حضور آپ کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے علی بن سفیان کو اشار تا کہا کہ جس جگہ میں جا رہا ہوں وہاں میرا اکیلا جانا ہی مناسب ہو گا لہذا میرے ساتھ کوئی بھی سپاہی نہیں جائے گا علی بن سفیان نے فرمایا اگر حضور بتادیں تو بہتر اگر نہ بنائیں تو جیسا حضور کو اچھا لگے سلطان خاموش رہے اور کہا کہ میرے لیے دعا کرنا لیکن جس جگہ سلطان جارہے تھے وہ جگہ بہت دور تھی اور اس جگہ پر پہنچنے کے لیے سلطان کو مسلسل کئی جنگلوں کئی گاؤں اور قصبوں سے گزرنا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ علی بن سفیان کو خدا حافظ کہہ کر اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے چلتے چلتے سلطان صلاح الدین ایوبی کو تقریبا تین دن مسلسل سفر کرنے کے بعد سلطان ایک غار کے دہانے پر جا پہنچے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے سلام کیا تو اندر سے جواب آیا اے میرے سلطان اندر آ جائیے۔ در حقیقت اس غار کے اندر سلطان کا ایک بڑار ہنما بزرگ رہتا تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے خفیہ پیغامات سلطان کے جاسوسوں تک پہنچاتا تھا لہذ ا سلطان صلاح الدین ایوبی جب بھی اس بزرگ کو پیغامات دینے جاتے تو سلطان اکیلے جاتے اور کسی کو ساتھ نہ لے کر نہ جاتے تھے کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنے علاوہ کسی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہیں کر سکتے تھے جب سلطان اس بزرگ کے پاس پہنچے تو اس وقت ظہر کی نماز کا وقت تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے سلام کرنے کے بعد فور اظہر کی نماز ادا کی اور نماز ادا کرنے کے بعد بزرگ نے آپ کے لیے گرم گرم مشروب تیار کیا سلطان نے گرم مشروب پیا اور کھانا کھانے کے بعد وہاں سے روانہ ہونے کی تیاریاں کرنے لگے اس بزرگ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایا حضور آج کی رات یہاں انتظار کر لیں کل صبح ہی آپ روانہ ہو جانا اور شہ ر شام کے بعد کسی ی مناسب مناسب جگہ پر پر قیام کرنا اور پھر اگلی صبح اپنا سفر جاری کرنا اور اس سے آپ کو مشکل بھی نہیں ہو گی اور آپ کا کسی مصیبت سے بھی سامنا نہیں ہو گا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا لہذا اسلطان نے سوچا کہ جو سفر شام تک ہو جائے گا وہ میر اوقت بیچ جائے گا لہذا سلطان اپنے گھوڑے پر سوار روانہ ہو گئے لیکن اتفاقا جس راستے سے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ گزرے تھے اس پر ایک دن پہلے بارش آنے کی وجہ سے بہت زیادہ کیچڑ تھا اور کیچڑ کی وجہ سے اس راستے سے نکلنا سلطان کے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ ایسی جگہ پر ڈاکوؤں کے حملے ہونے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا تھا اور گھوڑے کو سفر کرنے میں بھی دشواری آسکتی تھی لہذا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سارے راستے جانتے تھے لہذا سلطان نے دوسرا راستہ لیا اور اس راستے سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے چلتے چلتے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو ایک ایسی بستی میں جاکر شام ہوئی جو کہ سمندر کے کنارے تھی اور سمندر کے کنارے ایک مندر یعنی بت خانہ بنا ہوا تھا اور اس بت خانے کے تھوڑا سا فاصلے پر سلطان کو ایک بستی نظر آئی سلطان نے سوچا آج کی رات اس بستی میں کسی کے پاس قیام کرنا ہی بہتر رہے گا لہذا سلطان صلاح الدین رحمتہ اللہ علیہ جب اس بستی میں پہنچے تو سلطان کا گھوڑا ایک بوڑھی کی جھونپڑی کے آگے جار کا سلطان کے گھوڑے کی جیسے ہی آواز اس بوڑھی نے سنی تو دوڑ کر اپنے خیمے سے باہر نکلی اور اس نے آ کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایا اے مسافر جب بھی کوئی مسافر اس بستی سے گزرتا ہے تو میں ہی اس کی مہمان نوازی کرتی ہوں لہذا آپ رات میرے پاس قیام کریں وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ مسافر کون ہے اور کہاں سے آرہے ہیں ؟ انہوں نے آپ کو مسافر سمجھا اور جھونپڑی کے اندر لے گئی اس نے سلطان کو مسافر سمجھا اور دوسری طرف سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ ایک عام آدمی کے حلیے میں تھے لہذا اس عورت کو پہچاننے میں مشکل ہو گیا کہ آپ کون ہیں ؟ بوڑھی عورت نے سلطان کے لیے اچھا سا کھانا تیار کیا سلطان کو پیش کیا بوڑھی عورت کی باتوں سے ہی سلطان کو پتہ چل گیا تھا کہ یہ بوڑھی عورت مسلمان ہے اور وہاں ایک مسجد دیکھ کر سلطان کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ ساری بستی مسلمانوں کی ہے لہذا اسلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے آرام سے بیٹھ کر کھانا نوش فرمایا لیکن سلطان کوئی عام انسان نہیں تھے آپ کی دور اندیش آنکھوں نے یہ جانچ لیا تھا کہ وہ بوڑھی عورت اس وقت بہت پریشان تھی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے دوسری طرف دیکھا تو بستر میں ایک نوجوان حسین و جمیل لڑکی سورہی تھی سلطان نے بوڑھی عورت کو کہا اماں جی یہ کون ہے اور آپ اتنی پریشان کیوں ہیں ؟ تو اس نے کہا اے مسافر تم یہ پوچھ کر کیا کرو گے ؟ تم نہیں جانتے کہ کل میرے اوپر کیا قیامت گزرنے والی ہے ؟ جب اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو سلطان حیران ہوا اور پوچھا اماں جی بتائیں آخر ایسا کیا ہوا تو اس نے کہا بیٹا شاید آپ نے بھی سمندر کے کنارے ایک بت خانہ دیکھا ہو گا ہماری بستی کے لوگوں کا ایمان ہے کہ اس بت خانے میں ہر سال ایک شیطان آتا ہے اور وہ شیطان ایک نوجوان اور کنواری لڑکی کی بھی لیتا ہے اور ہر سال ہماری بستی میں چٹھی ڈال کے جس نوجوان لڑکی کا نام آجائے اس لڑکی کو اس بت خانے کے اندر دلہن بنا کر بٹھا دیا جاتا ہے اور رات کو جب وہ شیطان آتا ہے تو اس لڑکی کو مار دیتا ہے اور اس کا خون پینے کے بعد وہاں سے چلا جاتا ہے اور سال میں ایک بار وہ شیطان آتا ہے اور ہماری بستی والوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اس شیطان کو بلی نہ دی گئی تو وہ ساری بستی کو مار دے گا یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بڑے پریشان ہوئے اور کہا اماں جی مسلمان ہو کر بستی والوں کا اتنا کمزور ایمان یہ بہت شرم کی بات ہے کہ کبھی شیطان بھی مندروں میں آئے اور نوجوان کنواری لڑکی کی بلی لے شیطان کبھی انسان کا خون نہیں پیتا ہے تو اس بوڑھی عورت نے کہا بیٹا یہ جھوٹ نہیں یہ سچ ہے کیونکہ ہر سال ہم اس مندر کے اندر ایک کنواری لڑکی کو بٹھاتے ہیں اور جب صبح اس مندر میں جاتے ہیں تو اس لڑکی کی جان نکل چکی ہوتی ہے اور وہ مردہ ہوتی ہے سلطان بڑا حیران ہوا اور پوچھا اماں جی تو پھر آپ کے ر آپ کیوں پریشان ہیں تو اس نے کہا اے مسافر اس بار کسی اور لڑکی کی باری نہیں بلکہ میری اکلوتی بیٹی کی باری ہے لہذا کل شام میری بیٹی کو اس مندر میں بٹھایا جائے گا اور میری اکلوتی بیٹی کل شیطان کے ہاتھوں ماری جائے گی اگر میں نے اپنی بیٹی کی بلی دینے سے روکا تو اس بستی والے ہم دونوں کو مار دیں گے یہ سن کر سلطان بڑا حیران ہوا اور کہا اماں جی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر آپ کو اللہ پر بھروسہ ہے تو آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں آپ کی بیٹی کو کچھ نہیں ہو گا بوڑھی عورت کو سلطان کی باتوں سے تھوڑا بہت تو اطمینان ملا لیکن یہ خوف اسے دل ہی دل میں کھائے جا رہا تھا کہ کل میری اکلوتی بیٹی شیطان کے ہاتھوں بلی چڑھ جائے گی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اگلی صبح اپنا سفر شروع نہیں کیا اور وہاں ٹھہر گئے جب شام کا وقت ہوا تو سلطان نے عورت کو کہا اماں جی آپ مجھے اپنی بیٹی کی جگہ گھونگھٹ پہنا کر اس بستی والوں کے سامنے اس مندر میں بٹھا دیں تاکہ میں اس راز سے پردہ اٹھا سکوں کہ آخر اس مندر کے اندر حقیقت میں شیطان آتا ہے یا پھر یہ بستی والوں کا ایک وسوسہ ہے اس بوڑھی عورت نے کہا بیٹا یہ تم کیا کہہ رہے ہوا گر شیطان کو پتا چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا اور ایک لڑکی کی جگہ ہم نے ایک مرد کو بٹھا دیا تو وہ بستی کو مار دے گا یہ سن کر سلطان نے اس بوڑھی عورت کو کہا اماں جان اگر آپ کے دل میں ذرا بھی ایمان ہے تو آپ مجھ پر ؟ پر بھروسہ کریں اور مجھے اپنی بیٹی کی جگہ گھونگھٹ میں بٹھا دیں میں آج کی رات اس راز سے پردہ اٹھا دوں گا اس بوڑھی عورت نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کی جگہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو گھونگھٹ میں بٹھا دیا اور بستی والوں کو کہا کہ میری بیٹی بالکل تیار ہو چکی ہے لہذا آپ لے جائیں بستی والوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو ایک ڈولی میں بٹھایا اور اس مندر میں جاکر بٹھا دیا بستی والے چلے گئے اندھیرا چھانے لگا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی وقت مندر کے اندر گھونگھٹ اتار اسمندر کے کنارے گئے اور وضو کیا اور نماز عشاء ادا کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے وقت گزرتا رہا آدھی رات کا وقت ہوا لیکن کوئی بھی شیطان نہیں آیا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ دوبارہ حاجت کی وجہ سے باہر گئے سمندر کے کنارے وضو کیا اور آکر دوبارہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے لیکن ابھی تک شیطان نہیں آیا اتنے میں تہجد کی نماز کا وقت ہو ا سلطان نے تہجد کی نماز پڑھی اور فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت میں اتنا مشغول ہو گئے کہ دو پہر کا وقت ہو گیا اور سلطان کو پتہ ہی نہ چلا دوسری طرف صبح جب گاؤں والوں نے بوڑھی کی بیٹی کو دیکھا تو یہ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی اور لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر اس بوڑھی کی بیٹی اس جگہ موجود ہے تو پھر اس مندر میں کون لڑکی رات کو شیطان کے ہاتھوں بلی چڑھ گئی یہ سن کر تمام لوگ بستی والے اکٹھے ہو کر اس بوڑھی عورت کے پاس پہنچے اور آکر سوال کیا بوڑھی اماں اگر آپ کی بیٹی صحیح سلامت آپ کے پاس موجود ہے تو رات کو مندر میں کون لڑکی موجود تھی جو کہ شاید اب شیطان کے ہاتھوں مرچکی ہو گی تو اس بوڑھی عورت نے بستی والوں کو شروع سے لے کر ساری کہانی سنائی اور کہارات کو میں نے اپنی بیٹی کی جگہ ایک مسافر کو جس نے مجھے مجبور کر دیا تھا۔ اس کو میں نے بٹھا دیا تھا اور رات کو شاید شیطان نے اس مسافر کو میری بیٹی کی جگہ مار دیا ہو گا۔ یہ سن کر تمام لوگ بستی والے اس تنجس کے ساتھ اس مندر کی طرف دوڑنے لگے اور دیکھا کہ جاکر دیکھیں کہ آخر اس مسافر کے ساتھ کیا ہوا جب بستی والے مندر کے اندر پہنچے تو دیکھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھے انہوں نے جب سلطان کو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو وہ لوگ بڑے حیران ہو گئے اور کہا کہ آخر یہ نوجوان ساری رات مندر کے اندر موجود رہا لیکن شیطان نے اس کو کچھ نہ کہا اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی جگہ سے اٹھے اور ان بستی والوں کو کہا اے بستی والو میں ساری رات قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہا تین بار سمندر کے کنارے وضو کرنے کے لیے گیا لیکن مجھے تو کوئی شیطان نظر نہیں آیا یہ سن کر وہ بستی والے بڑے حیران ہو گئے اور پھر اتنے یا اتنے میں بوڑھی اماں نے کہا پھر اے مسافر ہمیں یہ بتاؤ کہ آخر شیطان مندر میں نہیں آتا تو اس لڑکی کی جان کیسے نکل جاتی ہے جس کو رات کو مندر میں بٹھایا جاتا ہے تو سلطان صلاح الدین ایوب رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس سمندر کے دونوں طرف جنگل ہی جنگل ہے پچھلا حصہ سار اسنسان ہے اور سامنے کی طرف سمندر ہے جس کی رات کو کتنی خطر ناک لہریں دکھائی دیتی ہیں آپ ہی اندازہ کریں کہ جب ایک لڑکی کو پتہ چل جائے کہ اس کی موت ہونے والی ہے تو اپنی موت سے پہلے اس خوف سے مر جاتی ہے اور پھر دوسری طرف وہ جنگل ہی جنگل اور سمندر ہونے کی وجہ سے آپ جس لڑکی کو بٹھاتے ہیں وہ اس ڈر کی وجہ سے مر جاتی ہے اور کوئی شیطان نہیں آتا لہذا تمام بستی والوں کو آج کے بعد اس مندر میں کسی بھی لڑکی کو بلی چڑھانے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی بہادری اور دلیری کی وجہ سے وہ گاؤں والے اتنی بڑی مصیبت سے بچ گئے اور اس بوڑھی عورت نے سلطان صلاح الدین ایوب رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پیر چومنا شروع کر دیا اور فرمایا اے مسافرا گر تم نہ ہوتے تو شاید اب تک میں بھی مر چکی ہوتی میری بیٹی کے علاوہ میرا اور کوئی دنیا میں موجود نہ تھا اور اگر آپ نہ آتے تو شاید میری بیٹی بھی مر چکی ہوتی تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اماں جان بے شک آپ مہمانوں کی اتنی قدر کرتی ہیں حتی کہ رات کو آپ اتنی پریشان تھی لیکن آپ نے میری مہمان نوازی میں ذرا بھی کمی نہیں چھوڑی اور اللہ تعالی کو آپ کی یہ نیکی پسند آگئی اور اس لیے اللہ تعالی نے مجھے آپ کی مدد کرنے کے لیے بھیج دیا اتنے میں بستی والوں نے پوچھا اے نوجوان تم کون ہوتے ہو اتنے بہادر اور دلیر انسان ہم نے آج تک نہیں دیکھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اے بستی والے میں اس سلطنت کا سلطان سلطان صلاح الدین ایوبی ہوں جب یہ بات ان لوگوں نے سنی تو فرمایا سلطان معظم بے شک ہم نے آپ کی دلیری بہادری اور عقلمندی کے قصے سنے تھے لیکن آپ کو اتناد لیر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا اور آج آپ کی دلیری تمام بستی والوں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لی اور اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ ان بستی والوں کو خدا حافظ کہہ کر وہاں سے چلے گئے اور جاتے ہوئے ایک انتہائی انمول جملہ کہہ کر گئے کہ ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھو جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے اسے کبھی خدا مایوس نہیں کرتا۔
0 Comments